دارالعلوم زکریّا سا ؤتھ افریقہ میں ایمان افزا بیان اور اشعار مجلس

دارالعلوم زکریّا سا ؤتھ افریقہ میں ایمان افزا بیان اور اشعار مجلس(PART 2)

Regularly updated : Teachings of Arif Billah Hazrat Maulana Shah Hakeem Mohammad Akhtar Sahab db

This site is dedicated to teachings of Shiekhul Arab Wal Ajam Arif Billah Hazrat Aqdas Maulana Shah Hakeem Mohmmad Akhtar Sahab Damat Barakatuhum which is clearly according to Quran And Sunnat

Read and listen and Make Practice on it ,then we feel life become like a paradise on the earth

حضرت والا کے بارے میں اہل حق اکابر علما کی رآے

Live Majlis daily from Karachi and Short Audio Of Hazratwala

06 June 2013

Hazratwala Rahmatullah alaihi has passed away . حضرت والا رحمہ اللہ انتقال فرماگئے


حضرت والا رحمہ اللہ انتقال فرماگئے


 انا للہ واناالیہ راجعون

Inna lillahi wa inna ilaihi rajioon.
Today on 23 Rajab (2nd june) evening 740pm, after maghrib, Hazrat wala, Shaikh ul arab wal Ajam, Arif billah Hazrat Maulana Shah Hakeem Muhammad Akhtar Saheb (sadly now r.a.) has passed away from this world after a duration of sickness.
Namaz e janaza was offered on 3rd june, monday morning 9am by Hazrat Maulana Mazhar Saheb (damat barkatuhum) at Jamia Ashraful Madaris. Gulistan e johar, karachi.
According to will (wasiyyat) it is requested to do eesal e sawab by sura ilhlas 3 times and by other amal. One should do it regularly as per capacity, and do dua e maghfirat.
Will (Wasiyyat) of our Shaikh (r.a.) is attached. (Download: file1file2)

01 March 2013

خاص : حقوق الوالدین Huququl Waldain

خاص :   حقوق الوالدین

Huququl Waldain

By

Shiekhul Arab Wal Ajam Arif Billah Hazrat Maulana Shah

 Hakeem Muhammad Akhtar Sahab Damat Baraktuhum





































17 December 2012

کتاب : معا رف مثنوی Exclusive Book:Muarif e Masnavi

For Download this Book Click Here>;;معا رف مثنوی 

Exclusive Book Muarif e Masnavi
by
Shiekhul Arab Wal Ajam Arif Billah Hazrat Aqdas

Maulana Shah Hakeem Mohammad Akhtar Sahab Hafizahullah


:مصنّف

شیخ العرب والعجم عارف باللہ حضرت

 مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب

دامت برکاتہم 








ضرورت شیخ اور علامت شیخ


09 October 2012

08 October 2012

بعض دفعہ تباہ شدہ زندگیوں کو زیادہ قرب نصیب ہوجاتا ھے


ارشاد فرمایا کہ گناہوں کا استحضار اپنی فنائیت و بے مائیگی کی نیت سے تو جائز اور مستحسن ہے کہ بندے کی نگاہ پھر اپنے عمل پر نہیں رہتی۔ اپنی پچھلی زندگی کے اعمال دیکھ کر اپنے دامن کو خالی پاتا ہے تو اس کی نگاہ اﷲ کی رحمت پر رہتی ہے کہ میں تو کسی قابل نہیں میاں کی رحمت بڑی ہے، اپنے عمل کے اعتبار سے تو میں مستحق عذاب ہوں لیکن حق تعالیٰ کی رحمت سے امید رکھتا ہوں کہ اپنی قدرت کاملہ قاہرہ سے وہ ایک منٹ میں نہ جانے کیا سے کیا بناسکتے ہیں۔ ان کی عطا کسی استعداد و قابلیت کسی قاعدہ قانون کی پابند نہیں ہے۔ مطلع ابر آلود ہوتا ہے ایک ہوا چلتی ہے اور گھنگھور گھٹائوں کو اڑا کر لے جاتی ہے۔ اسی طرح اگرچہ ہمارے قلب کا افق گناہ کی گھٹائوں سے گھر گیا، نور کی کہیں گنجائش نہیں رہی لیکن اپنی گھٹائوں کو مت دیکھو ان کی نسیم کرم پر نظر رکھو، اس کے سامنے یہ گناہ کیا چیز ہیں۔ تو اپنی بے مائیگی اور فنائیت کے اعتبار سے اپنی سابقہ زندگی کے گناہوں کو یاد کرنا یہ تو پسندیدہ ہے، اﷲ کو یہ بات پسند ہے کہ بندہ مٹا ہوا رہے۔ ایسا شخص کہ جس نے کبھی کوئی گناہ تو نہیں کیا لیکن اپنے اعمال پر نظر ہوگئی کہ میں ایسا ہوں، میرے ان اعمالِ حسنہ سے مجھ کو بڑا قرب حاصل ہوگیا ہوگا۔ سمجھ لو شیطان نے اس کا راستہ ماردیا، ایسا شخص ہرگز مقرب نہیں ہوسکتا جو قرب حاصل تھا وہ بھی ختم ہوگیا۔اس سے تو وہ گنہگار اچھا ہے جو اپنے گناہوں کی وجہ سے نادم رہتا ہے۔ ندامت اور شرمندگی اﷲ کو پسند ہے لیکن کبھی کبھی شیطان کان میں پھونک دیتا ہے کہ تم نے تو ساری زندگی گناہوں میں کاٹ دی حتیٰ کہ اب گناہوں کی استعداد بھی نہ رہی اور ولایت موقوف ہے استعداد ہوتے ہوئے تقاضے پر عمل نہ کرنا، اب تمہیں کیا قرب نصیب ہوگا، ولایت کا اعلیٰ مقام اب تمہیں نصیب نہیں ہوسکتا۔ جب دل میں یہ خیالات آئیں تو سمجھ لو کہ یہ شیطان کا زبردست دھوکہ ہے۔ وہ مایوس کرنا چاہتا ہے کہ اسے اﷲ کا قرب حاصل نہ ہوسکے۔ گناہ کا ایک تعلق تو بندے کی ذات سے ہے کہ واقعی ہم اپنے عمل کے اعتبار سے کسی قرب خاص کے مستحق نہیں لیکن دوسرا تعلق اﷲ کی ذات سے ہے کہ وہ ہمارے گناہوں سے بھی عظیم ہیں ایک منٹ میں گناہوں کو دھوکر تاج خلافت پہناسکتے ہیں اس لحاظ سے ان کی رحمت سے ہرگز ہرگز کسی حال میں نا امید نہ ہونا چاہیے۔
اے عظیم از ما گناہان عظیم
تو توانی عفو کردن در حریم
یہ ہے معرفت۔ اصل میں ہم دنیا کے اور جسم کے معاملات پر ان کی رحمت کو قیاس کرتے ہیں اس وجہ سے ناامیدی ہوجاتی ہے جیسے دنیا میں کسی مریض کے پھیپھڑوں میں سوراخ ہوتا ہے اور ناقابل علاج ہوجاتا ہے تو ڈاکٹر کہتے ہیں کہ یہ ناقابل علاج ہوگیا، اب اسے کسی علاج سے فائدہ نہ ہوگا کیونکہ اس میں اب استعداد صحت ختم ہوچکی ہے لیکن روح کے معاملات کو کبھی اس مثال پر قیاس نہ کرنا کیونکہ روح کا معاملہ اﷲ کے ساتھ ہے اور اﷲ تعالیٰ کی الوہیت کیا ہماری استعداد سے چھوٹی ہے یا ہماری استعداد کی پابند ہے یا اﷲ تعالیٰ مجبور ہیں کہ فلاں بندے نے کیونکہ گناہ کرکے خود کو تباہ کرلیا اس لیے نعوذ باﷲ اب ہم اس کو اپنا بنانے پر قادر نہیں لہٰذا سند اعمال صالحہ یعنی سند استعداد ولایت دکھائو تو ہم اپنا بنائیں گے۔ ارے خوب یاد رکھو کہ اﷲ کی رحمت کسی سند و استعداد کی پابند نہیں، جب وہ فضل فرماتے ہیں تو ایک منٹ میں بغیر سند و استعداد کے اپنا بنالیتے ہیں، بندہ جس قابل نہیں ہوتا اس قابل بنادیتے ہیں۔ وہ قابلیت کے پابند نہیں ہیں، نجاست پر جب ان کے آفتاب کرم کی شعاعیں پڑتی ہیں تو آفتاب کی گرمی سے اس کا ایک حصہ تو زمین میں جذب ہوجاتا ہے اور ایک حصہ خشک ہوجاتا ہے۔ اسی نجاست کے ذرات برسات میں کھاد ہوجاتے ہیں اور وہ حصۂ زمین سبزہ زار ہوجاتا ہے۔ اور خشک حصہ تنور میں جل کر نور بن جاتا ہے۔ بولئے نجاست میں کیا خوبی و استعداد تھی؟ ان کی رحمت نجاست کو سبزہ زار بنادیتی ہے نور بنادیتی ہے۔ سبزۂ و نور بننے سے پہلے اگر نجاست یوں کہے کہ میں تو کسی قابل نہیں کیونکہ میرے اندر تو سبزہ زار بننے کی صلاحیت ہی نہیں تو یہ اس کی حماقت اور معرفت کی کمی ہے۔ ارے تونے اپنی استعداد کو دیکھا اﷲ کی رحمت کو نہ دیکھا جو خالق قابلیت و استعداد ہے۔ تہجد کے وقت حضرت بڑے پیر صاحب شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اﷲ علیہ کو الہام ہوا کہ دو ہزار میل کی دوری پر ایک ابدال کا انتقال ہورہا ہے جائو اس کی نماز جنازہ پڑھانی ہے اور فلاں عیسائی کو جو صلیب ڈالے ہوئے گرجا میں پوجا کررہا ہے کلمہ پڑھا کر کرسی ابدالیت پر بیٹھانا ہے۔ بولئے اس عیسائی میں کیا استعداد تھی، کفرو طغیان میں مبتلا تھا ابھی تو کوئی عمل بھی نہ کیا تھا اور درجہ ابدال کا عطا ہورہا ہے، اتنے شواہد ہیں کہ تاریخ بھری ہوئی ہے۔ حضرت فضیل ابن عیاض ڈاکہ ڈالتے تھے جوانی ڈاکہ زنی قتل و غارت میں گذاری اپنے آپ کو تباہ کرلیا تھا، بڑھاپے میں توبہ کی اور ہمارے سلسلے کے اتنے بڑے ولی اﷲ ہوئے کہ آج سلسلہ ان سے جاری ہوا۔ بولیے کیا کسی استعداد کی وجہ سے انہیں یہ قرب عطا ہوا۔ اﷲ کی رحمت پر نظر رکھو ان کی رحمت سے بڑے سے بڑے درجہ ولایت کی امید رکھو ان کا فضل کسی قاعدہ قانون کا پابند نہیں روتے رہو اور مانگتے رہو ان کا فضل جس کو چاہتا ہے مقام عالیہ عطا کرتا ہے وہ کسی کی استعداد و قابلیت کا پابند نہیں ان کے فضل سے امید رکھو کہ کس وقت نہ جانے کیا سے کیا بنادیں۔
بعض دفعہ تباہ شدہ زندگیوں کو زیادہ قرب نصیب ہوجاتا ہے جیسے ایک ملک میں زلزلہ آیا تھا تو اس ملک کے بادشاہ نے شاہی خزانے کو عام کردیا تھا کہ جس کا مکان تباہ ہوگیا ہو وہ پہلے سے اچھا مکان بنالے، جن کی جھونپڑیاں تھیں ان کے محل بن گئے۔ تو کیا ہمارا اﷲ دنیاوی بادشاہوں سے بھی نعوذ باﷲ کم ہے؟ اگرچہ ہم نے گناہوں کے زلزلوں سے اپنے آپ کو تباہ کرلیا ہے لیکن ہمارا شاہ تو ایسا غنی ہے کہ ہماری عمارت قرب کو پہلے سے کہیں اچھی اور عالی شان تعمیر کرسکتا ہے، وہ پہلے سے زیادہ اور عظیم الشان قرب عطا فرمانے پر قادر ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ان سے مایوس نہ ہونا چاہیے چاہے کیسا ہی حال ہو بلکہ توبہ کرکے ولایت کے اعلیٰ ترین مقام کی امید رکھنا چاہیے۔
نظر کی حفاظت شرمگاہ کی حفاظت کا ذریعہ ہے
ارشاد فرمایا کہ جو اپنی آنکھوں کو ننگا کرتا ہے اﷲ تعالیٰ اس کی شرمگاہ کو ننگا کردیتے ہیں اور جو اپنی آنکھ پر اﷲ کے حکم کا پردہ ڈالتا ہے اس کی برکت سے اس کی شرمگاہ پر بھی پردہ ڈالے رکھتے ہیں۔ اس لیے ارشاد ہے قل للمومنین یغضوا من ابصارہم و یحفظوا فروجہم اے محمد صلی اﷲ علیہ وسلم ایمان والوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی آنکھوں کو نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ معلوم ہوا کہ اگر آنکھیں نیچی رکھی جائیں گی تو شرمگاہ بھی محفوظ رہے گی ورنہ بس بے حیائی کی پہلی سیڑھی بدنظری ہے، یہ وہ لفٹ ہے کہ اگر اس میں سوار ہوگئے تو بس پھر آخری منزل (بدفعلی) پر لے جاکر چھوڑے گا کیونکہ جب آدمی لفٹ میں بیٹھ جاتا ہے اور اس کا بٹن دبادیتا ہے تو اب درمیان میں نہیں رک سکتا منزل پر ہی جاکر لفٹ رکتی ہے۔ یہ وہ لفٹ ہے کہ اس کا چلانے والا شیطان ہے لہٰذا اس میں سوار ہی نہ ہو۔ اﷲ تعالیٰ نے آنکھوں میں روشنی دی ہے تو اوپر چلمن بھی بنادی ہے اس لیے جب کوئی خوبصورت نظر آئے تو یہ چلمن (یعنی پپوٹے) ڈال دو، شعاع نظر کو آگے نہ بڑھنے دو۔ جو ایسا کرے گا انشاء اﷲ کبھی شرمگاہ کو ننگا کرکے ذلیل نہ ہوگا۔ اگرچہ اس میں مجاہدہ کرنا پڑے گا تقاضا ہوگا تکلیف ہوگی لیکن سب کچھ جھیلنا چاہیے۔ اس وقت یہ سوچنا چاہیے کہ جس صورت پر آج جان و مال قربان کرنا بلکہ سلطنت قربان کرنا آسان معلوم ہوتا ہے کل یہی صورت ایسی ہوجائے گی کہ اس کی طرف نظر کرنے کو جی نہ چاہے گا، ایک پیالی چائے پلانے کو دل نہ چاہے گا۔ کوئی لڑکا ہے کہ آج جی چاہ رہا ہے کہ ا س پر جان و مال قربان کردو لیکن کل جب اس کے ڈاڑھی نکل آئے گی تو اس کو دیکھ کر بھاگوگے۔ یہ شیطان و نفس نقد نفع دکھاتے ہیں اور صورت اتنی حسین نہیں ہوتی جتنی وہ دکھاتے ہیں حالانکہ ہر چیز کو اس کے انجام کے اعتبار سے دیکھنا چاہیے ؎
گر بہ آرد رو بہ تو آں رو قفا ست
زادۂ دنیا چو دنیا بے وفا ست
شیطان اگر کسی کی صورت کو اچھا دکھائے تو اسے گدی سمجھو یعنی جس چیز کو وہ اچھا دکھائے اس کو اس کا عکس یعنی برا سمجھو۔ وہ آغاز میں شہوت کو پاک محبت کرکے دکھاتا ہے کہ تمہیں ا اس سے صرف پاک محبت ہے کوئی نفسانی تعلق نہیں ہے شہوت کو وفا دکھاتا ہے تو سمجھ لو کہ دنیازادہ دنیا کی طرح بے وفا ہے۔ حرام تعلق ایک دن نفرت میں تبدیل ہوجاتا ہے اور آپس میں ہمیشہ کے لیے عداوت ہوجاتی ہے۔

25 July 2011

رمضان المبارک: خصوصی ہدایات، حضرت محی السنّہ مولانا شاہ ابرار الحق رحمۃاللہ

رمضان المبارک: خصوصی ہدایات

 حضرت محی السنّہ مولانا شاہ ابرار الحق رحمۃاللہ








ماہ رمضان خاص بیانات حضرت والا Special Ramazan Bayanat